درد ہی اصل میں سرمایۂ جاں ٹھہرا ہے
دِل کو روتا ہے وَہی، دِل کو سنبھالتا ہے وَہی
درد کو باندھ لیا ہے دِلِ بےکَل کے ساتھ
چھوڑ دُوں، پھر یہ وَبالِ غمِ جاں ہو جائے
غم کو کہتا ہوں میں اَفسانۂ ہَستی اکثر
اور یہی حرف مرے دِل کا بَیاں ہو جائے
مجھ کو معلوم ہے، راحت نہیں بے دَرد وجود
پر یہی رَنج مرے واسطے جاں ہو جائے
اَشک کو خونِ جِگر کہتے ہیں اَربابِ نظر
چھوڑ دُوں دَرد، تو پھر کون مرا ہو جائے؟
دَرد کو چھوڑ دُوں، دِل کیسے سنبھل جائے
زندگی ترکِ غمِ جاں سے بدل جائے
عِشق وہ آتشِ ہَمدم ہے کہ دامن سے لگے
چھوڑ دے دِل تو یہ سینے سے نکل جائے
آنکھ گریہ کُشا، دِل ہے تماشائیِ دَرد
اَشک بہنے لگیں، محفل ہی سجَل جائے
غَم کو رکھنا ہی حقیقت ہے زمانے میں، حضور
چھوڑ دے کوئی اگر، خود ہی پَچھتائے، پگھل جائے
ہم نے جانا کہ غمِ دِل ہی ہے سرمایۂ جاں
یہ خَزانہ نہ رہے، رُوح بھی ڈھل جائے